حضرت موسی ، ان کی شریک حیات اور حیا

قرآن مجید حیا کے متعلق ایک خوبصورت واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس سے مسلمان عورت کو یہ سبق بھی ملتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے گھر سے نکلے .!!

حضرت موسی ، ان کی شریک حیات اور حیا
حضرت موسی ، ان کی شریک حیات اور حیا

حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک عظیم پیغمبر تھے؛ جو اﷲ تعالیٰ سے براہ راست ہم کلام ہوئے، ایک مرتبہ سفر میں تھے گرمی کا موسم تھا، پاؤں ننگے تھے، سفر کی تھکاوٹ اور پیدل چل چل کر پاؤں میں چھالے پڑ چکے ہیں، ذرا آرام کرنے کے لئے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے؛ کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر ایک کنواں ہے وہاں کچھ نوجوان اپنی بکریوں کو پانی پلا رہے ہیں اور ان سے کچھ فاصلے پر دو باحیا لڑکیاں کھڑی ہیں جب آپ نے ان کو دیکھا تو حیرانگی کی انتہا نہ رہی کہ یہ دونوں لڑکیاں اس جنگل میں کیوں کھڑی ہیں اور کس کا انتظار کر رہی ہیں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ ان کا کوئی بھائی نہیں، باپ بوڑھا ہے وہ اس قابل نہیں کہ چل پھر سکے اور وہ دونوں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لئے آئی ہیں کہ جب تمام لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جائیں گے تو آخر میں یہ اپنی بکریوں کو پانی پلائیں گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی بات سننے کے بعد آگے بڑھے اور خود پانی کنوئیں سے نکالا اور ان کی بکریوں کو پلا دیا۔

لڑکیاں جب خلاف معمول جلدی گھر پہنچیں تو باپ نے جلدی آنے کی وجہ پوچھی تو دونوں نے باپ کو پوری حقیقت سے آگاہ کردیا، باپ چونکہ خود بھی پیغمبر تھے فرمایا کہ جاؤ اس نوجوان کو بلاکر لاؤ؛ تاکہ ہم اس کو پورا پورا بدلہ دیں۔

اب ایک لڑکی جب موسیٰ علیہ السلام کو بلانے آئی تو وہ کس طرح آئی؟

اس کا انداز کیا تھا؟

قرآن نے اس کے چلنے کا انداز جو کہ شرم و حیا سے لبریز تھا اس طرح بیان کیا ہے۔

​​ترجمہ: ’’پھر آئی ان دونوں میں سے ایک، شرم و حیا سے چلتی ہوئی، وہ کہنے لگی کہ میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ وہ بدلہ دے جو آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔ ‘‘(القصص ؍ ۲۵)​​

حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے آئی، شرم و حیا کا دامن نہیں چھوڑا نگاہ نیچے تھی، بات بھی شرما کر زیادہ کھل کر نہیں کی، اﷲ تعالیٰ کو اس کی حیا اس قدر پسند آئی کہ اس حیا کو قرآن بنا کر حضرت محمد رسول ﷲ ﷺ پر نازل کر دیا تاکہ پوری امت کی عورتوں کو پتہ چل جائے کہ جب وہ گھروں سے نکلیں تو شرم و حیا سے عاری لوگوں کی طرح گردن اٹھا کر نہ چلیں بلکہ دھیمی چال سے کہ شرافت اور حیا ان سے واضح نظر آئے، جس طرح شعیب علیہ السلام کی بیٹی شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی۔

عملی اعتبار سے حیا کے تین شعبے ہیں:

​​(۱) اﷲ تعالیٰ سے حیا​​

​​(۲) لوگوں سے حیا​​

​​(۳) اپنے نفس سے حیا​​

اﷲ تعالیٰ سے حیا کا مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کو نہ توڑے۔

لوگوں سے حیا یہ کہ حقوق العباد کو ادا کرے، لوگوں کے سامنے جن باتوں کے اظہار کو محبوب اور برا سمجھا جاتا ہے، اُن کے اظہار سے بچے۔

اور اپنے نفس سے حیا یہ ہے کہ نفس کو ہر برے اور قابل مذمت کام سے بچائے۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ چند آیات اور احادیث کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے شرم و حیا پر کتنا زیادہ زور دیا ہے اور اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اسے ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

شرم و حیاء ایمانی زیور ہے لیکن آج کل کے دور میں شرم و حیا، عفت و عصمت کا جنازہ نکل چکا ہے؛ آج حیا ایک عیب بن کر رہ گیا ہے، عشق و معشوقی کے کھیل رچائے جا رہے ہیں، مغربی تہذیب نے دنیا کو بے شرم اور بے حیا بنادیا ہے۔ آج اگر ہم اپنے معاشرے میں نظر دوڑائیں تو ہر طرف بیہودہ تصویریں نظر آتی ہیں، مغربی میڈیا ہر جگہ عورت کی تصویر کو نمائش بناکر پیش کر رہا ہے، آپ کو مختلف چوکوں اور چوراہوں پر ایسے سائن بورڈ نظر آئیں گے جہاں عورت کی تصویر کے ذریعہ اشتہار برائے کمائی نظر آئے گی، عورت کی اس حالت کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، پھر افسوس ہے کہ بے وقوف لوگ اسی کو آزادیٔ نسواں اور حقوق ِ نسواں کا نام دیتے ہیں۔

پیاری بہنوں ​​اپنی زندگی میں ہر قدم ایسے پھونک پھونک کر رکھیں کہ ایمان کے لٹیرے اور عزتوں کے ڈاکو کہیں شرم و حیاء کی یہ قیمتی دولت آپ سے چھین نہ لیں ۔​​

​​اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین ثم آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

FacebookWhatsAppShare