بسم اللہ الرحمن الرحیم
شکیل بن حنیف اور اس کے متبعین اسلام سے خارج
مفتیان امارت شرعیہ کا فتویٰ
جمہور علماء امت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں،نبوت کا دروازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے ،اب امت کی اصلاح کا کام مصلحین کے ذریعہ ہوتا رہے گا،اس طرح کارنبوت انجام دینے والوں میں دواہم شخصیتوں (حضرت عیسیٰ علیہ السلام وامام مہدی)کا تذکرہ خاص طور پر احادیث میں کیا گیا ہے،جس کا ظہور قرب قیامت میں ہوگا،جن کی نشانیاں اور علامات کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف،صاف واضح انداز میں بیان فرمادیاہے،چند احادیث درج کی جاری ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:دنیا اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک کہ عرب پر ایک شخص قبضہ نہ کرے گاجو میرے خاندان میں سے ہوگا،اس کانام میرے نام پر ہوگا۔
عن عبداللّٰہ قال،قال رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم:لاتذھب الدنیا حتی یملک العرب من أھل یواطیٔ اسمہ اسمی ۔۔۔ھذا حدیث حسن۔(السنن للترمذی ،باب ماجآء فی المھدی:۲؍۴۷)
دوسری حدیث شریف میں ہے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر دنیا کے ختم ہونے میں صرف ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو بھی اللہ تعالیٰ اس دن کو دراز کردے گا یہاں تک کہ پروردگار میری نسل میں سے یا یہ فرمایا کہ میرے خاندان میں سے ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جس کا نام میرے نام پر اور اس کے والد کانام میرے والد کے نام پر ہوگا۔
عن عبداللّٰہ عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال:لم یبق من الدنیا إلایوم ،قال زائدۃ لطوّل اللّٰہ ذلک الیوم حتی یبعث رجلا منی أو من أھل بیتی یواطیٔ اسمی واسم أبیہ واسم أبی۔(السنن لأبی داؤد،کتاب الھدی:۲؍۵۸۸)
تیسری حدیث شریف میںہے:حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (آخری زمانہ میں)ایک حکمراں (خلیفہ)کی موت کے بعد لوگوں میں اختلاف پیداہوگا ،پس اسی دوران اہل مدینہ میں سے ایک شخص نکل کر مکہ مکرمہ کی طرف بھاگ آئیں گے،مکہ کے لوگ اس کے پاس آئیں گے اور اس کو گھر سے باہر نکال کر لائیں گے،(تاکہ اپنا سربراہ اور حاکم بنائیں)وہ شخص (فتنہ کے خوف سے)اگر چہ یہ منصب قبول کرنے کو ناپسندکریں گے،مگر لوگ (منت سماجت کرکے تیارکریںگے)اور اس کے ہاتھ پر حجراسوداور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کریں گے ،پھر ان کے مقابلہ کے لئے ایک لشکر ملک شام سے بھیجاجائے گا،لیکن وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام بیداپر دھنسادیاجائے گا،جب لوگوں کواس لشکر کے دھنس کر ہلاک ہوجانے کی خبر معلوم ہوگی توملک شام کے ابدال اور عراق کے نیک لوگوں کی جماعتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گی،آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گی، اس کے بعدایک شخص قریش میں سے اٹھے گاجن کاننہال بنی کلب میں ہوگا،جوایک لشکر ان کی طرف بھیجے گا،وہ اس پرغالب آجائیں گے،یہی کلب کالشکرہے،اس شخص پر افسوس جو قبیلہ کلب کی جنگ کامال غنیمت حاصل نہ کرے، اس کے بعد حضرت مہدی مال غنیمت تقسیم کریں گے اور لوگوں میں اپنے نبی کی سنت زندہ کریں گے، اسلام اپنی گردن زمین میں ڈال دے گا(پورے روئے زمین پر اسلام پھیل جائے گا)(محمد بن عبداللہ المہدی)سات سال زمین میںرہیںگے،پھر آپ کی وفات ہوگی اور مسلمان نماز جنازہ پڑھیں گے۔
عن أم سلمۃ زوج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال: یکون اختلاف عند موت خلیفۃ فیخرج رجل من أھل المدینۃ ھاربا إلیٰ مکۃ فیأتیہ ناس من أھل مکۃ فیخرجوہ وھوکارہ فیبایعونہ بین الرکن والمقام ویبعث إلیہ بعث من الشام فیخسف بھم بالبیداء بین مکۃ والمدینۃ،فإذا رأی الناس ذلک أتاہ أبدال الشام وعصائب أھل العراق فیبایعون،ثم ینشؤرجل من قریش أخوالہ کلب،فیبعث إلیھم بعثاً فیظھرون علیھم وذلک بعث کلب والخیبۃ لمن لم یشھدغنیمۃ کلب، فیقسم المال ویعمل فی الناس بسنۃ نبیھم صلی اﷲ علیہ وسلم ویلقی الاسلام بجرانہ إلی الأرض، فیلبث سبع سنین،ثم یتوفی ویصلیٰ علیہ المسلمون۔(السنن لأبی داؤد:۲؍۵۸۹)
چوتھی حدیث شریف میں ہے:حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :میری امت میں سے ہمیشہ کوئی جماعت حق کے لئے لڑتی رہے گی اور (اپنے دشمنوں پر)غالب آئے گی ،قیامت (کے قریب)تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ،پھر آپ نے فرمایا کہ جب حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام (آسمان سے)اتریں گے اور اس وقت مسلمان نماز کی حالت میں ہوں گے تو امت کے امیر (امام مہدی)حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہیں گے ،آئیے ہمیں نماز پڑھائیے ،لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے میں امامت نہیں کروں گا،بلاشبہ تم میں سے بعض لوگ بعض پر امام و امیر ہیں ،اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت محمدیہ کو بزرگ وبرتر قرار دیا ہے۔
’’جابربن عبداللّٰہ یقول سمت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم یقول:لاتزال طائفۃ من أمتی یقاتلون علی الحق ظاھرین إلیٰ یوم القیامۃ ،قال: فینزل عیسی بن مریم،فیقول أمیرھم:تعال صل لنا،فیقول:لا، إن بعضکم علی بعض أمراء تکرمۃَ اللّٰہ ھذہ الأمۃ۔(الصحیح لمسلم:۱؍۸۷)
پانچویں حدیث میں ہے:ابو اسحاق کہتے ہیں کہ (ایک دن)حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر کہا کہ میرا بیٹا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سردار ہے ،عنقریب اس کی پشت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کا نام تمہارے نبی کے نام پر ہو گا، وہ باطنی سیرت یعنی اخلاق وعادات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوگا ،گو ظاہری شکل وصورت میں آپ کے مشابہ نہ ہوگا۔
عن أبی اسحاق قال:قال علی رضی اﷲ عنہ،ونظر إلیٰ ابنہ الحسن فقال إن ابنی ھٰذا سید کماسماہ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم وسیخرج من صلبہ رجل یسمی باسم نبیکم صلی اﷲ علیہ وسلم یشبہ فی الخلق ولایشبہ فی الخلق۔(السنن لأبی داؤد:۲؍۵۸۹)
چھٹی حدیث میں ہے:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا’’ مہدی میری اولاد میں سے ہوگا ،روشن وکشادہ پیشانی اور اونچی ناک والاہوگا،وہ روئے زمین کو عدل وانصاف سے بھردے گا، جس طرح وہ ظلم وستم سے بھری ہوئی تھی،وہ سات برس تک روئے زمین پر برسراقتدار رہے گا۔
عن أبی سعید الخدری قال قال رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلمالمھدی منی،أجلی الجبھۃ،أقنی الأنف یملأ الأ رض قسطاً وعدلاًکماملئت ظلماً وجوراًویملک سبع سنین ‘‘(السنن لأبی داؤد :۲؍۵۸۹)
مذکورہ بالا احادیث میں امام مہدی کے سلسلے میںجو علامات ونشانیاں بیان کی گئی ہیں وہ بالکل واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ ان کا نام محمد ہوگا ،ان کے والد کانام عبداللہ ہوگا،وہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہوں گے،مدینہ منورہ میں ولادت ہوگی ،مکہ مکرمہ میںمقام ابراہیم وحجر اسود کے درمیان آپ کے ہاتھ پر بیعت کریںگے،روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھردیں گے ،پورے روئے زمین پر اسلام پھیل جائے گا،ملک شام کے ابدال اور عراق کے نیک لوگوں کی جماعت آپ کے ہاتھ پر بیعت کرے گی،حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ کی اقتداء میں نماز اداکریں گے وغیرہ وغیرہ۔
شکیل بن حنیف جو اپنے آپ کو امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرتاہے اس میں مذکورہ باتوں میں سے کوئی بھی بات نہیں پائی جاتی ہے،یہی نہیں بلکہ اس کا ان باتوں سے دور دور تک تعلق وواسطہ نہیں ہے،اس کا اپنے اوپر ظہور مہدی کی روایا ت کومنطبق کرنا قطعاً غلط ،صریح جھوٹ اور مکروفریب ہے،اس سے مسلمانوں کو بچناضروری ہے۔
اب رہامسئلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اتاراجانا،تو یہ قرآنی نصوص ،احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے،تفسیر ابن کثیر میں ہے:وقد تواترت الأحادیث عن رسول اللّٰہ ﷺ أنہ أخبر بنزول عیسیٰ علیہ السلام قبل یوم القیامۃ ‘‘(تفسیرابن کثیر:۴؍ ۱۶۹)
(رسول اللہ ﷺ کی احادیث اس معاملہ میں متواتر ہیںکہ آپ ﷺ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قبل قیامت نازل ہونے کی خبردی ہے)اور حدیث متواتر ہ کا منکر کافرہے۔’’من أنکرالمتواتر فقد کفر‘‘(الفتاویٰ الھندیۃ:۲؍۲۶۵)
اسی طرح حضرت علامہ انورشاہ کشمیری علیہ الرحمۃاپنی تصنیف ’’إکفارالملحدین‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا حدیث متواتر اوراجماع سے ثابت ہے اور حدیث متواتر کا انکار کرنے والا کافر ہے۔’’وقد تواتر وانعقد الإجماع علی نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام فتأویل ھذہ وتحریفہ کفر‘‘(إکفارالملحدین فی ضروریات الدین:۳۳،ط:دارالبشائرالإسلامیۃ)
لہٰذا شکیل بن حنیف جو اپنے آپ کو امام مہدی اور مسیح موعود عیسیٰ علیہ السلام ہونے کا دعویٰ کرتاہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نزول کا منکر اور پیدائش کا قائل ہونے کی وجہ سے مرتد اور خارج اسلام ہے اور جولوگ اس کو امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام مانتے ہیں اور ا س عقیدہ پر اس کے ہاتھ پر بیعت ہوتے ہیں وہ بھی مرتد اور اسلام سے خارج ہیں۔فقط
واللہ تعالیٰ اعلم
محمدسعیدالرحمن قاسمی، مفتی امارت شرعیہ ،بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ
الجواب صحیح : احتکام الحق قاسمی
نائب مفتی امارت شرعیہ ،بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ