اردو نظم کا تاریخی پس منظر

تمہید

نظم ایک ایسی صنف شاعری ہے جوفنی اور فکری دونوں اعتبار سے اپنے اندر بہت زیاد و تنوع رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظم کے ارتقا کی تاریخ اور روایت دوسری اصناف کے مقابلے زیادہ پیچیدہ اور نا ہموار ہے۔ اردو شاعری کے ابتدائی دور میں نظم باقاعدہ صنف کی صورت میں ہمیں نظر نہیں آتی بلکہ اپنے مزاج کے لحاظ سے مثنوی اور قصیدوں کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ پھر اس کے بعد نظیر اکبر آبادی کے یہاں نظم کا قدرے واضح تصور ابھرتا ہے۔ نظم باقاعدہ طور پر سرسید تحریک اور انجمن پنجاب کے زیر اثر مروجہ صنف کے طور پر ایک الگ شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے۔

اردو نظم کا تاریخی پس منظر
اردو نظم کا تاریخی پس منظر

 زیر نظر پوسٹ میں آپ نظم کے تاریخی پس منظر، آغاز اور انجمن پنجاب تک کے اس کے ارتقائی سفر کا مطالعہ کریں گے۔ نظم کے فنی اور فکری ارتقا کا سفر بہت طویل اور ناہموار ہے۔ اس صنف میں بیان اور ہیئت دونوں اعتبار سے تنوع پایا جاتا ہے اس لیے یہ صنف مختلف ادوار میں مختلف قالب بدلتی ہے اور اپنے ارتقائی مراحل طئے کرتی ہے۔ اس پوسٹ میں آپ نظم کی روایت کے آغاز ، اس کے ابتدائی خدوخال اور ارتقائی سفر کے حوالے سے معلومات حاصل کریں گے۔ 

تاریخی پس منظر

اگر اردو شاعری کے آغاز کی بات کریں تو اردو شاعری کی روایت کے آغاز کا سہرا خسرو دہلوی کے سر ہے ۔ امیر خسرو اردو شاعری کے بنیاد گزار ہیں۔ بنیادی طور پر خسرو فارسی کے شاعر ہیں اور ان کا بیشتر شعری سرمایہ اسی زبان پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اردو زبان میں بھی شاعری کی ہے۔ 

اردو شاعری کے اولین نقوش امیر خسرو کے یہاں ہی ملتے ہیں۔ امیر خسرو کی ہندوی شاعری جو اپنی زبان کی تخلیق کے ابتدائی مراحل طے کر رہی تھی، اردو شاعری کی غیر مربوط مبہم اور ابتدائی شکل تھی۔ زبان و بیان اور جیت کے اعتبار سے اگر چہ خسرو کی ہندوی شاعری زیادہ وسعت کی معانی و مطالب تلاش کر لیتا ہے۔ چونکہ اردو زبان اپنے ابتدائی دور میں تھی اس لیے خسرو کے یہاں جو زبان ملتی ہے وہ اتنی واضح اور پختہ نہیں ہے لیکن اس زبان میں جو اپنی تشکیل کے آغاز میں تھی ، ایسے نمونے پیش کرنا ان کا غیر معمولی کارنامہ ہے۔

امیر خسرو اردو زبان کے پہلے شاعر اور نظم نگار ہیں۔ ان کا دستیاب ہندوی کلام چند حمدوں ، غزلوں ، دوہوں، دوسخنوں ، جھولوں، کہہ مکرنیوں ، محاوروں اور پہیلیوں پر مشتمل ہے۔ خسرو کی پہیلیاں بہت اہم ہیں۔ انھوں نے ان پہیلیوں میں مختلف موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ ان کی پہیلیوں میں خوبصورت استعاروں اور کنایوں کا غیر معمولی استعمال ملتا ہے۔ خسرو نے ” پہیلی ” پہیلی لب ، حمد الہی، پہلی چراغ، پہلی ستی، پہیلی فکر، اور دیگر عناوین کے ساتھ بہت سی پہیلیاں لکھی ہیں۔

امیر خسرو کے بعد شمالی ہند میں اردو شاعری کی روایت کا تسلسل سکوت اختیار کر لیتا ہے اور اس کی توسیع شمال کے بجائے دکن میں ہوتی ہے۔ صدئ کی آخری دہائی اور چودھویں صدی کی پہلی دہائی میں چند ایسے سیاسی واقعات در پیش آتے ہیں جو اردو زبان وادب کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 

علاء الدین خلجی نے 1297 ء میں گجرات فتح کیا اور پھر 1310 ء میں سارے دکن کو فتح کر کے سلطنت دہلی میں شامل کر لیا اور اس کے انتظام و انصرام کے لیے دکن اور گجرات کے علاقوں میں سو سو گاؤں الگ کر کے ان پر ایک ترک امیر مقرر کر دیا جس کو امیر صدہ کہا جاتا تھا۔ اس کی وجہ سے بہت سے ترک خاندان شمالی ہند سے جا کر دکن میں آباد ہو گئے ۔ اس کے بعد ایک اور اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ 1327ء میں محمد بن تغلق نے دہلی کے بجائے دولت آباد کو پایہ تخت بنانے کا فیصلہ کیا اور حکم صادر کیا کہ تمام سرکاری محکمہ فوج ، افسران اور متعلقین دولت آباد کوچ کر جائیں۔ اس طرح سرکاری محکمہ اور فوج کے ساتھ بہت سے عوام بھی ہجرت کر گئے اور ان کے ساتھ بہت سے صوفیائے کرام بھی دعوت و تبلیغ کے ارادے سے دکن اور گجرات پہنچ گئے ۔

مذکورہ واقعات کی بنا پر شمالی ہند سے لے کر جنوبی ہند تک اردو زبان وادب کی نشوونما کے لیے ایسی ساز گار فضا پیدا ہوگئی کہ یہ زبان پورے ہندوستان کی مشترکہ عوامی زبان کی حیثیت اختیار کرنے کے لیے تیزی سے ترقی کے مراحل طے کرنے لگی ۔ اس طرح اردو زبان شمال سے دکن پہنچ گئی جہاں اس زبان کے ادبی اور لسانی خدوخال واضح ہوئے ۔ دکن کے لوگوں اور شمالی ہند سے جانے والوں کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف تھیں اس لیے ایک ایسی مخلوط زبان کو جس کو دونوں سمجھ سکیں ، ترقی کرنے اور رائج ہونے کا موقع ملا۔ اسی لیے اردو زبان دکن میں خوب پھلی پھولی۔ صوفیا کرام نے اس زبان کو رواج بخشنے اور ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ دکن میں امیران صدہ نے دہلی کے مرکزی اقتدار کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور پہلی حکومت کے نام سے الگ ریاست قائم کر لی ۔ یمنی حکومت کے زیر سایہ اردو زبان کو عوامی سطح پر ترقی کرنے کا موقع ضرور ملا تھا مگر ادبی سطح پر صوفیا کرام کے ملفوظات، مذہبی تصانیف اور مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا ذکر اور حوالے ہی تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ یہمنی حکومت بھی کچھ عرصے بعد پانچ حصوں میں تقسیم ہو گئی جن میں قطب شاہی اور عادل شاہی خاندانوں کے زیر حکومت اردو شاعری نے بہت ترقی کی۔ ان خاندانوں کے بیشتر حکمراں خود بھی شاعر تھے اور شاعروں کی سر پرستی اور داد رسی بھی کرتے تھے۔

دکن میں شعری اصناف میں سب سے زیادہ مثنوی کو فروغ حاصل ہوا۔ ابتدا میں اردو نظم مثنوی کی صورت اور ہیئت (Form) میں اردو شاعری کے افق پر نظر آتی ہے۔ مثنوی کے علاوہ دیگر مسلسل بیانیہ پر مبنی شعری ہیئتیں اور اصناف کو بھی نظم کے ہی ذیل میں رکھا جاتا ہے۔ مثنوی اپنے مزاج کے اعتبار سے نظم سے زیادہ قریب تر ہے۔ مثنوی کو نظم کی ابتدائی صورت یا قالب قرار دینے کی وجہ وہ عناصر اور اوصاف ہیں جن پر نظم کی بنیاد ہے۔

پہلے نظم سے غزل کے علاوہ بقیہ تمام بیانی شعری اصناف مراد ہوتی تھیں۔ نظم کی کوئی مخصوص ہیئت نہیں ہے اور نہ وہ کبھی کسی بیت کی پابند رہی ہے۔ چونکہ نظم کی کوئی مخصوص صنف نہیں تھی بلکہ غزل کے علاوہ دیگر اصناف اعظم کے دائرے میں آتی تھیں۔ چونکہ جب نظم کی شناخت اردو شاعری میں قائم ہوئی اور اس کی حیثیت مستحکم ہوئی تو فطری طرز اظہار اور حقیقت نگاری کے رجحان کے تحت یہ تبدیلی واقع ہو رہی تھی اور چونکہ مثنوی کی روایت بیشتر مافوق الفطری عناصر سے مملو تھی اس لیے بھی وہ نظم سے مختلف ہوگئی۔ 

مذکورہ گفتگو کے تناظر میں مثنوی کو نظم کی ایک ذیلی شکل تسلیم کیا جانا چاہیے۔ چونکہ مثنوی ہیئت کی پابند ہے لیکن موضوع اور بیان کے اعتبار سے نظم کی پیرو ہے اور مثنوی کی ہیئت میں بھی نظم لکھی جاتی ہیں ۔ حالی اور آزاد نے نظم جدید کی تحریک کے تحت ایسی ہی نظمیں لکھی ہیں جو مثنوی کی مخصوص ہیئت میں ہیں بلکہ بعض تو مثنوی کے عنوان کے ساتھ ہی لکھی گئی ہیں مثلا مثنوی شب قدر وغیرہ ۔ 

جب نظم مخصوص صنف کی حیثیت سے متعارف نہیں تھی اس وقت مثنوی کی صورت میں اردو شاعری میں موجود تھی اور جب نظم بحیثیت صنف اردو شاعری میں اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی تو بھی مثنوی کو خود سے الگ نہیں کر پائی۔ مثنوی کے علاوہ مرثیہ اور قصیدہ بھی پہلے غزل کے بالمقابل نظم کے دائرے میں آتے تھے۔ یہ اصناف بھی تسلسل بیان اور یک موضوعی ہونے کی بنا پر نظم سے قریب تر تسلیم کیے جاسکتے ہیں۔

محمد قلی قطب شاہ کے یہاں دیگر موضوعات پر بھی نظمیں ملتی ہیں۔ زبان و بیان کے اعتبار سے زیادہ اہمیت کی حامل نہ ہونے کے باوجود ان کی نظمیں اس عہد کی آئینہ دار ہیں۔ قلی قطب شاہ نے غزل کی طرز اور ہیئت پر بھی نظمیں لکھی ہیں۔ ان نظموں میں شاعر نے عنوان قائم کیا ہے اور پوری غزل نما نظم میں تسلسل سے اس کو بیان کیا ہے۔ دکن کے اہم نظم نگاروں میں محمد قلی قطب شاہ کے علاوہ ملا وجہی ، نصرتی، غواصی، فائز ، امین ، بحری و غیره کافی اہم ہیں قلی قطب شاہ نے ایک عنوان کے تحت مختصر مثنویاں اور مسلسل بیانیہ غزلیں لکھی ہیں۔ محمد قلی قطب شاہ کی ان مثنویوں اور مسلسل غزلوں کو بھی نظم کے حصے میں رکھا جا سکتا ہے۔

شمالی ہند میں فارسی سے ہٹ کر اٹھارہویں صدی میں جب اردو شاعری پر شعرائے دہلی نے داد سخن دینا شروع کیا تو فاری کی طرز پر اردو میں بھی صنف شاعری ٹھہری اور فارسی غزل کے موضوعات بھی آگئے ۔ گویا غزل فارسی زبان سے اردو کا صرف قالب بدل رہی تھی۔ لیکن یہاں مثنوی مخمس ، مسدس، ترجیع بند، ترکیب بند، قطعه رباعی وغیرہ اصناف پریعنی نمونے ملتے ہیں جو نظم کے حصہ میں آتی تھیں۔ 

شمالی ہند کے ابتدائی شاعروں میں جن کے یہاں نظم کے نمونے ملتے ہیں، ان میں سراج الدین علی خان آرزو، شاہ مبارک آبرو،  ظہور الدین حاتم شاکر ناجی ، صدرالدین خاں فائز ، سید عبدالولی عزلت سورتی اور میر عبد الحئی تاباں کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

اردو نظم سے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اردو نظم کی بنیاد انگریزی کے زیر اثر پڑی لیکن یہ خیال درست نہیں ہے کیوں کہ اردو نظم کی تاریخ بہت قدیم ہے، اردو نظم کی بنیاد اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی اردو شعر و ادب کی تاریخ ہے۔ 

اردو شاعری کے ابتدائی ادب پاروں کو اگر دیکھیں تو ایسی صنف سخن کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی جن میں بیانیہ کی زیادہ گنجائش ہو اور جن میں مربوط خیال کو تسلسل کے ساتھ بآسانی بیانیہ اسلوب میں شعری پیکر میں ڈھالا جاسکے ۔ 

اردو شاعری کی ابتدائی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اور ماقبل کے مباحث سے یہ انداز ہوتا ہے کہ نظم اردو شاعری کے ابتدائی دور میں وجود میں آچکی تھی اور بعد میں مختلف ادوار سے گزر کر مروجہ اور موجودہ شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ پہلے یہ مثنوی کی شکل میں ملتی ہے۔ 

ابتدا میں مثنوی کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل تھی اور دکنی ادب میں بہت سی اعلیٰ مثنویاں اردو شاعری کے آغاز میں ہی لکھی گئی تھیں ۔ اردو نظم ابتدا سے نظیر اکبر آبادی تک آتے آتے مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی رہی ہے اور مختلف شکلوں میں رائج رہی ہے۔ نظیر اکبر آبادی نے اردو نظم کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کیا۔ نظیر نے اردو نظم کو ایک مستقل صنف کی حیثیت سے بہت ترقی دی اور اس کی ایک مستقل صنفی حیثیت اور شناخت قائم کی ۔ 

اردو نظم کا آغاز اور ارتقا ہندوستانی شعرا کے ذریعہ ہی عمل میں آیا تھا، اس میں انگریزی یا دوسرے مغربی ادب کا کوئی حصہ نہیں ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں سرسید کے زیر تحریک حالی اور آزاد کے ذریعہ انگریزی کے زیر اثر اردو نظم کی جدید کاری عمل میں آئی تھی اور اس کے بعد نظم میں مغربی نظم کے آثار ظاہر ہوئے۔ حالی اور آزاد کی تحریک نظم جدید کے زیراثر انگریزی نظم کو وہ عمل قرار دیا گیا اور انگریزی شاعروں اور ان کی نظموں کو آئیڈیل سمجھا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

FacebookWhatsAppShare